کائنات، کب اور کیسے وجود میں آئی؟


انسان زمانۂ قدیم سے فلکیات میں دلچسپی  رکھتا ہے مگر ابتدا میں اس کے پاس   دوربین نہیں تھی ، اس لیئے اس کے مشاہدات  صرف ان چیزوں تک محدود رہے جنھیں  سادہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا ۔پھر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اسکی تحقیق کا دائرۂ کار بھی وسیع  ہوتا گیا  اور  یوں   کائنات کے پوشیدہ رازوں  کو جاننے کی اسکی جستجو بھی تیز تر ہوتی گئ۔

کائنات کے مرض وجود میں آنے کے بعد سے لے کر آج تک کے تمام واقعات اگر ہم کسی کورس یا لیکچر کی صورت میں بتانا شروع کریں تو اس کے لیئے ایک  طویل عرصہ درکار ہوگا کیونکہ 13۔8 ارب سالوں پہ محیط واقعات کو درجہ بہ درجہ بیان کرنا اور سمجھانا کوئی آسان کام نہیں  لیکن اگر ہم 13۔8 ارب سالوں کا خلاصہ کر کے اس پر محیط ایک کیلنڈر بنا لیں جس کا ہر مہینہ تقریبا ًایک ارب سال کے برابر ہو اور اس کا ہر دن تقریبا ًچار کروڑ سالوں کےبرابر ہو تو اس کیلنڈر سے کائنات کے بارے میں سمجھنا  نسبتا َََآسان ہوگا کیونکہ ہم اپنی روزمرّہ زندگی میں کیلنڈر کے تمام مہینوں کے ناموں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ چونکہ اس پورے کیلنڈر میں کائنات کی پیدائش سے لے کر آج تک کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے اس لئے ماہرین نے اس کو "کائناتی کیلنڈر" کا نام دیا 
ہے۔

1جنوری : کائناتی کیلنڈر میں سال کے آغاز میں  ایک زور دار دھماکہ ہوا جس سے آج پوری کائنات میں موجود انرجی،مادہ  اور وقت وجود میں آیا۔ اس دھماکے کو "بگ بینگ" کا نام دیا گیا ۔ دھماکے سے پہلے یہ تمام انرجی،مادہ اور وقت کسی ایٹم میں موجود الیکٹران کے سائز کے سوویں حصّے کے برابر جگہ میں قید تھے۔ اتنے چوٹی سی جگہ میں انرجی کی بہت زیادہ مقدار جب قید ہوتی ہے تو اس جگہ میں موجود ذروں کے درمیان کشش ثقل ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اس سے الٹ کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یہی اس دھماکے کی وجہ بنی۔
10 جنوری: بگ بینگ کے بعد تمام کائنات کا درجہ حرارت کم ہونا شروع ہوا اور اسی کے ساتھ ہی 20 لاکھ سالوں تک مکمل تاریکی چھایی رہی۔ پر تاریکی چھانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ کائنات میں اس وقت کوئی ہلچل نہیں ہو رہی تھی، بلکہ بگ بینگ کر نتیجے میں پیدا ہونے والی ہائیڈروجن اور ہیلیم کے بادل موجود تھے اور اسی کے ساتھ ان میں موجود کشش ثقل ہائیڈروجن اور ہیلیم کے ایٹموں کو آپس میں جوڑ رہی تھی جس سے ستارے بنے۔ان ستاروں کے بننے سے کائنات میں بگ بینگ کے بعد چھا جانے والی تاریکی کو زوال آیا اور کائنات میں ان ستاروں کی بدولت روشنی پیدا ہوئی۔
13 جنوری: ان نومولود ستاروں کے درمیان کشش نمایاں ہوئی اور یہ ستارے چھوٹے چھوٹے جھرمٹوں میں جمع ہونے لگے۔ ان جھرمٹوں کو کہکشاں کہا جاتا ہے۔  یوں کائناتی کیلنڈر کے پہلے مہینے کی 13 تاریخ کو سب سے پہلی کہکشائیں وجود میں آ ئی۔ 
15 مارچ: چھوٹی کہکشاؤں کے ملنے سے بڑی کہکشائیں بنتی چلی گئیں اور 15 مارچ کو ہماری اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے وجود میں آئی۔ ہر ایک کہکشاں میں کروڑوں اربوں ستارے ہوتے ہیں، ہماری کہکشاں میں بھی تھے اوراب بھی ہیں ، لیکن ملکی وے کے بننے کے بعد یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کہکشاں کے اربوں ستاروں میں سے وہ ستارہ کونسا ہے جس کے طلوع ہونے سے ہماری صبح اور اس کے غروب ہوجانے سے ہماری رات ہو جاتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری کہکشاں کے بننے کے بعد بھی ہمارا سورج وجود میں نہیں  آیا تھا ۔  اس  کے بعد کائنات میں بہت سے دیگر ستارے بننا شروع ہوئے اور بہت سے بڑے ستارے پھٹنا شروع ہوگئے جس کے نتیجے میں موجود حاصل شدہ مادہ دوسرے چھوٹے ستاروں میں تبدیل ہوتا گیا ۔
31 اگست: آج سے تقریبا ً 4۔5 ارب سال پہلے ہمارا سورج بنا۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایساجسم جو آج زمین پر ہر جاندار کی زندگی کا ضامن ہے، اس کائنات کے بننے کے تقریبا ً 9 ارب سال بعد بنا ہے۔ لیکن ذرا ٹھہرے!
 "ابھی نہ تو زمین  وجود میں  آئی ہے ، نہ چاند، نہ چاند کی چاندنی اور نہ ہی اس چاندنی کو دیکھنے والا انسان۔"
21 ستمبر: اب ایک آگ کی طرح گرم اور کسی آتش فشاں کی طرح لال گول جسم سورج کے گرد گھومنا شروع ہوا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نہ جانے کس چیز کی بات کر رہا ہوں۔ یہ چیز اور کوئی نہیں بلکہ وہ جگہ ہے جہاں میں اور آپ رہتے ہیں اور اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یعنی 21 ستمبر کو ہماری اپنی زمین وجود میں آ ئی لیکن یہ اس وقت کسی آتش فشاں سے بھی کہیں زیادہ گرم تھی کہ زندگی کا کوئی نام و نشان موجود ہونے کے کوئی ممکنات نہیں تھے۔ زمین گھومتی گھومتی ٹھنڈی ہونے لگی کہ اچانک نظام شمسی میں سے ایک شہاب ثاقب آکر زمین سے ٹکرایا جس سے زمین سے ذرّات ہوا میں اڑے اور ان ذرّات کی آپس کی  کشش نے بھی اپنا کام دکھایا اور ہمارا چاند بنا۔ اگر آپ اس وقت زمین کی سطح پر کھڑے یہ نظارہ دیکھ رہے ہوتے تو چاند کا سائز جتنا آپ کو آج نظر آتا ہے، اس وقت اس سے ١٠٠ گنا بڑا نظر آتا کیونکہ چاند زمین کے قریب تھا۔
زندگی کیسے وجود میں  آئی ؟ اس سوال کا   کوئی مؤثرجواب آج بھی سائنس  دانوں کے پاس نہیں پر ہاں اتنا ضرور پتا چل چکا ہے کہ اس شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے بعد زندگی کا آغاز ہوا۔ اور وہ  شہاب ثاقب یقینا ً کہکشاں کے کسی دوسرے کونے سے آیا تھا۔
9  نومبر: زندگی کے وجود میں آنے کے بعد کیمیائی اور حیاتیاتی ارتقائی عمل کا آغاز ہوا اور اس عمل کے نتیجے میں 9 نومبر کو زندگی کی حالت یہ تھی کہ مائکروسکوپک ( خوردبینی )جاندار سانس لے سکتے تھے  اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچان سکتے تھے
17 دسمبر: یہ وہ دن ہے جب سمندری جانداروں نے خشکی پر آنا شروع کیا اور اس سے جانداروں میں مختلف اقسام زمین پر پھیلتی چلی گئیں ۔ جنگلات،  پرندے ، اور ہم، سب دسمبر کے آخری ہفتے میں ارتقائی عمل سے وجود میں اے۔
دسمبر کا آخری ہفتہ :  یہ وہ دن ہے جس دن دنیا کا پہلا پھول کھلا ۔ اس دور میں قدرتی آفات کی وجہ سے جنگلات زمین کے نیچے دبے تو ان کے اوپر اور جنگلات بن گئے ۔یہ نیچے  دب جانے والے جنگلات آج کوئلے میں تبدیل ہو گئے ہیں جنہیں ہم روزمرّہ کی زندگی میں توانائی کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ابھی بھی دنیا دیناثار جیسے بڑے جانداروں کا ہی راج تھا  اور چھوٹے جانور ان سے ڈر کر چھپتے رہتے تھے لیکن 30 دسمبر صبح 6 بجکر 24 منٹ پر ایک اور شہاب ِثاقب زمین سے ٹکرایا اور ان بڑے جانداروں کو تباہ کر گیا۔  جس کے باعث چھوٹے جانوروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کائناتی کیلنڈر کا آخری دن آگیا پر ہم انسان کے وجود میں آنے کا ذکر ہی نہیں آیا۔جی ہاں، آپ بلکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ہم انسان اس کائناتی کیلنڈر کے آخری دن کے آخری گھنٹے میں وجود میں آئے ۔
آخری دن کے آخری گھنٹے کے آخری منٹ کے آخری چند سیکنڈز:
آج کی کتابوں میں جتنی بھی تاریخ لکھی گئی ہے وہ سب کی سب کائناتی کیلنڈر میں آخری 14 سیکنڈز میں  وقوع  پزیر ہوئے۔ تمام جنگیں، تمام بادشاہ، تمام انبیا، اور اس کے علاوہ جتنے بھی سائنسدانوں کو آپ جانتے ہیں وہ سب انہی 14 سیکنڈز میں گزرے ہیں۔
سال ختم ہونے کے ان 14 سیکنڈز یعنی 60،000 سالوں پہلے، ہم نے لکھنا سیکھا۔ اسی کیلنڈر کے ختم ہونے کے آخری 1 سیکنڈ پہلے ہم نے سائنس کا استعمال شروع کیا۔ اسی آخری سیکنڈ میں گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے چاند کا نظارہ کیا اور اسی سیکنڈز میں ہی انسان چاند پی بھی پہنچ گیا ۔ یاد رہے، کائناتی کلنڈر کا ایک سیکنڈ 400 سالوں کے برابر ہے۔ 
اس سارے مضمون کا حاصل کلام یہ تھا کہ کائنات کی وسعت کو جاننا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ کائنات کے تمام واقعات کو ٣٦٥ دن پر محیط ایک کیلنڈر کے ذر یعے بیان کرنا سو فیصد  تک مطمئن 
نہیں کرسکتا   لیکن ہم اس کی ایک مختصر جھلک  ضرور دیکھ سکتے ہیں ۔

یہ آرٹیکل "ڈان" پر شائع ہوچکا ہے۔


Popular Posts