!چاند پر انسانی قدم


لفظ"چاند" سے آج ہم سب واقف ہیں لیکن چاند تو دوسرے سیاروں کے گرد بھی ہیں مگر  ان کو محض"چاند" نہیں کہا جاتا بلکہ مختلف ناموں  سےپکارا جاتا ہے۔ سیارۂ زمین کے چاند کو یہ مخصوص نام شاید اس لیئے دیا گیا  کہ جب انسان نے آسما نی اشیاء کا مطالعہ کر کے ان کے نام رکھنا شروع کئے، تب  دوربین نہ ہونے کے باعث اسے صرف ہماری زمین کا چاند ہی دکھائی دیتا تھا ۔ ۱۶۰۹ء میں گلیلیو نے دنیا کی پہلی دوربین بنائی تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ صرف زمین ہی واحد سیارہ نہیں جس کے گرد چکر لگانے والا چاند موجود ہے بلکہ سیارہ مشتری کے گرد بھی ۴ بڑے چاند محو گردش ہیں جنہیں آج "گلیلین مونز" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
 دوربین ایجاد کے بعد جب انسان نے فلکیاتی اجسام کا اور زیادہ گہرائی سے  مشاہدہ شروع کیا تو  سب سے پہلا سوال یہی اس کے ذہن میں آیا کہ " کیا دوسرے سیاروں اور چاند پر بھی زندگی موجود ہے؟ اگر  ایسا ہے تو وہاں کی زندگی کی کیسی ہوگی؟" بس اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کی جستجو میں آج انسان خلاء میں درجنوں خلائی گاڑیاں بھیج چکا ہے اور چاند تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔
چاند پر پہلا انسانی قدم بظاہر کوئی سائنسی پیش رفت  معلوم پڑتی ہے ، لیکن درحقیقت یہ بھی مختلف ممالک کی سیاسی دوڑ اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی ایک کوشش ہی تھی۔
۱۹۶۱ء میں جب روس نے زمین سے خلاء میں پہلا خلاباز بھیجا تو امریکا کو اس  سیاسی دوڑ میں روس سے آگے نکلنے کی فکر پڑگئی۔ اس وقت کے امریکی صدر کینیڈی نے فیصلہ کیا کہ امریکا کی جانب سے پہلے انسان چاند پر بھیجا جائے گا۔ امریکا کا یہ فیصلہ تھا تو جذباتی لیکن اس جلد بازی میں کیئے گیئے فیصلے نے ہی سائنس کا دائرہ کار اور زیادہ وسیع کردیا اور نتیجتاً آج انسان مریخ پر قدم رکھنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
چاند کی سطح دیکھنے میں کسی صحرا سے کم نہیں، اس ویران و بنجر جگہ کی مٹی میں راکھ بھی موجود ہے۔ ان بنجر میدانوں میں جانے کا تصور کسی عام انسان کے دماغ میں نہیں آسکتا لیکن سائنسدان  ہر اس چیز  میں دلچسپی رکھتے ہیں جو بظاہر لوہا لگتی ہے مگر درحقیقت وہ سونا ہو تی ہے۔ اس لیئے انہوں نے چاند پر جاکر اس کی مٹی کو جانچنے، آسمانی نظاروں کو دیکھنے اور بہت سے سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کے لیئے چاند پر مشن بھیجنے کی حکمت عملی بنائی اور اس مشن کو "اپولو 
مشن" کا نام دیا۔
آج اس دور جدید میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی کم ظرفی کے باعث اس امر کو ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں کہ انسان چاند پر کبھی گیا بھی تھا۔ اس کی مخالفت میں یہ لوگ اس قدر بچکانہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ  تھوڑی بہت سائنسی معلومات رکھنے والا عام فہم بندہ بھی باآسانی ان کے جوابات دے سکتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۲ء کے عرصے میں  کل بارہ  خلائی گاڑیاں  چاند پربھیجی گئی تھیں۔ اپولو مشن کی خاص بات یہ تھی کہ اس مشن میں خلاباز خود بھی موجود تھے۔ اپولو ١١ مشن سے پہلے اپولو مشن کے نام سے جو خلائی گاڑیاں خلاء میں بھیجی گئی وہ سب چاند پر اترنے سے پہلے کی مشقیں  تھیں۔ اپولو مشن کے ٦ مشنز چاند پر اترے اور خلاباز چاند کی سطح پر چہل قدمی کرتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ چاند پر موجود ماحول کا جائزہ بھی لیتے رہے۔ اپولو ١، ٧، ٨، ٩، ١٠ اور ١٣ کے مشنز میں خلائی گاڑیاں خلاء میں گھوم کر واپس آگئیں، اور اپولو ١١ پہلا مشن تھا جو چاند پر اترا۔ اس مشن کے بعد اپولو ١٢، ١٥، ١٦ اور ١٧ کو بھی چاند پر اتارا گیا۔
اپولو ١١ مشن کی خلائی گاڑی کو ۱۶ جولائی ۱۹۶۹ء کو کیپ کینیڈی سے خلاء میں بھیجا گئی اور یہ گاڑی ۴ دن کی مسافت طے کرنے کے بعد ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء کو چاند کی سرزمین پر اتری۔ اس مشن میں تین خلاباز شامل تھے جن میں نیل آرمسٹرونگ مشن کمانڈر ،مائیکل کولنز اور بز الڈرین پائلٹ تھے۔ ان میں سے خلاباز نیل آرمسٹرونگ سب سے پہلے خلائی گاڑی سے باہر نکلا اور چاند کی سرزمین پر پہلا قدم رکھ کے  ایک نئی تاریخ رقم کی۔ چونکہ یہ خلاباز امریکی تھے، اس لیئے چاند پر اپنے وطن کا پرچم بھی گاڑا۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چاند پر کشش ثقل زمین کی نسبت قدر نحیف ہے لیکن پھر بھی یہ "ذرا" سی کشش بھی چیزوں کو چاند کی سطح کی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے اگر امریکی جھنڈا ایک سیدھے راڈ پر لگا کر گاڑا جاتا تو عین ممکن تھا کہ وہ چاند پر ہوا کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہمیشہ ڈھلکا ہوا دکھائی دیتا۔ اس کے پیش نظر راڈ کو انگریزی حروف تہجّی کے حرف "L" کی طرح بنایا گیا تھا جس سے جھنڈا لہراتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
ایک اور اعتراض بڑی شد و مد سے کیا جاتا رہا ہے کہ چاند پر ۱۹۷۲ء کے بعد سے اور کوئی مشن کیوں نہیں بھیجا گیا؟ تو اس کا نہایت آسان اور عام فہم جواب یہ ہے کہ انسان ابھی کائنات میں زندگی تلاش کر رہا ہے اور چاند پر بار بار جا کر یہ جان چکا ہے کہ وہاں پر زندگی بسر کرنا اور اپنی بقا کی جنگ لڑنا  بہت مشکل ہے کیونکہ فضاء کی عدم موجودگی کی وجہ سے سورج کی تپش بہت تیز ہوتی ہے اور زندگی گزارنے کے لئے بنیادی ضروریات بھی دستیاب نہیں ہیں۔
لیکن پھر بھی اگر لوگوں کو چاند پر مشن جاتے دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ انسان خلائی بسیں بنا لے اور ہر کسی کے  لیئے چاند پر جاکر اسکی سیر کرنا ممکن ہو۔

یہ آرٹیکل "راہِ قمر" پر شائع ہوچکا ہے۔

اسی مصنف کی دوسری تصانیف پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Popular Posts